Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر2

پر ان کے "فراموش" کرنے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!! 
ان کے "بُھلا" دینے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!!
×××××
عادل کے بے حد اصرار پر وہ یونیورسٹی سے واپسی پر اس کے ساتھ ہی گئی تھی۔ اریزے کو اسے وہاں دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، بلکہ وہ تو اس کی اچانک آمد سے بہت سرپرائز بھی ہوئی،  اریزے کو اس وقت عنقا کا آنا بہت اچھا لگا تھا۔
×××××
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اریزے، عنقا کو ڈائنگ ہال میں لے کر گئی۔۔ اس نے منع بھی کیا تھا کہ اسے لنچ نہیں کرنا۔۔ پر اریزے کہاں سننے والی تھی۔۔!!
 بھلا وہ کیسے اپنی لاڈلی بہن کی خاطر تواضع نہ کرتی۔۔۔!!
وہ دونوں کھانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری رکھے ہوئے تھیں۔۔ فوزیہ بیگم بھی ان کی گفتگو میں ، خوش دلی سے اپنا حصہ ملا رہی تھیں اور عادل بیٹھا اُن کے منہ دیکھ کر جل رہا تھا۔
اب عنقا کو وہ اپنے لیے لایا تھا اور میڈم نے اُسے کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی۔۔ اس لیے وہ وہاں بیٹھے بیٹھے خوب سڑ رہا تھا۔
آج ان لوگوں نے عنقا کی وجہ سے پہلے لنچ کیا تھا ورنہ وہ عدیل اور مصطفیٰ صاحب کے آنے کے بعد ہی کرتے تھے۔
اریزے جانتی تھی کہ اس کے سرتاج کس قدر حساس ہیں۔۔!! اگر عدیل کو پتہ چل جاتا کہ اریزے نے اس کے بغیر ہی کھانا کھایا ہے تو وہ اس سے خواہ مخواہ ہی ناراض ہوتا۔ اس لیے وہ ، ان سب کے ساتھ بیٹھی۔۔ بس برائے نام ہی کھا رہی تھی۔۔ اس کا سارا دھیان تو بس باتوں کی طرف تھا۔۔!!
اپنے جان لٹانے والے ، محبوب شوہر کی خاطر۔۔ وہ اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔۔!! آخر اس کا فرض تھا کہ وہ اس جنونی کی ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا خیال رکھے۔
×××××
عنقا کو عدیل بہت عجیب لگتا تھا۔۔ عدیل اور اریزے کی شادی کو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا اور اریزے کی زبانی ، عدیل ایک انتہائی کیئرنگ بندہ تھا مگر پھر بھی۔۔ عنقا کو اس کی بات پر تسلی نہیں ہوتی تھی۔
وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ بظاہر، اس قدر اکھڑ، بے مروت اور سخت مزاج نظر آنے والا آدمی کیسے۔۔ ویسا ہو سکتا ہے۔۔ جیسا کہ اریزے بتاتی ہے۔۔۔!!
اس انسان تو آج تک عنقا کو مخاطب کر کے کبھی سلام بھی نہیں کیا تھا۔۔!! وہ تو کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔۔!!
 پھر وہ کیسے اس کی بہن کو اتنا چاہ سکتا تھا۔۔!!
حقیقت میں تو باقی سب کے ساتھ اس کا جیسا بھی رویہ ہو۔۔ لیکن اریزے کے لیے، وہ اپنی شخصیت سے ہٹ کے، ایک بالکل ہی مختلف انسان تھا۔۔!! 
وہ اکثر ایسی باتیں سوچتی۔۔!! اور پھر خود ہی اپنی ساری سوچوں پر فضول ہونے کا ٹھپا لگا کر ، اپنی جان چھڑاتی۔
آخر کو یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا۔۔!! وہ دونوں آپس میں جس حال میں بھی رہیں۔۔!! اس سے عنقا کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا۔۔!! اور ویسے بھی جب اریزے کی طرف سے کوئی شکایت نہیں تھی تو وہ خواہ مخواہ کیوں ٹینشن لیتی۔۔!!
یہ مسئلہ صرف عنقا کے ساتھ نہیں۔۔!! بلکہ ہمارے آس پاس بھی ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔۔ جن کو اللّٰه جانے۔۔ اپنا سکھ راس نہیں آتا۔۔ اس لیے فضول میں دوسروں کے متعلق سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں۔۔!!
بندے کو چاہیے کہ وہ آرام، سکون سے رہے۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھے۔۔!! لیکن نہیں ہماری تو ساری انٹرٹینمنٹ ہی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر ہوتی ہے۔۔۔!!
اب کیا کریں۔۔!! عادت سے مجبور جو ٹھہرے۔۔!!
اسی طرح عنقا خود کو لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی خود کو اس کے متعلق سوچنے سے باز نہیں رکھ پاتی تھی۔۔ مگر وہ اپنی بہن کی محبت میں، اُس کی فکر کرتی تھی۔۔۔ اُس کی ٹینشن لیتی تھی۔۔!!  کیوں کہ اُسے اس کی بہن بہت عزیز تھی۔۔ کیوں کہ وہ ہر حال میں اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی۔۔ بس عدیل کی پرسنیلٹی، کبھی کبھی تھوڑا شک میں ڈال دیتی۔۔!!
××××××
عدیل اور اریزے کی شادی کو دس ماہ گزر چکے تھے، خیر سے اب وہ پریگننٹ بھی تھی۔۔ اس کا آٹھواں منتھ چل رہا تھا ، ڈاکٹر نے بہت زیادہ احتیاط کی تلقین کی تھی۔
سارا گھرانہ بےحد مسرور تھا، مصطفیٰ صاحب، فوزیہ بیگم ، عادل۔۔ اریزے کے گھر والے، سبھی بےبی کے دنیا میں آنے کے شدت سے منتظر تھے۔ سبھی لوگ اریزے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔
عدیل نے تو ویسے ہی اس کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ ڈاکٹر نے مزید تاکید کردی۔۔
اب تو وہ اسے بیڈ سے نیچے، قدم تک نہیں رکھنے دیتا تھا۔
اسے خود نہیں سمجھ آتا تھا کہ وہ کیسے اس کے لیے اتنا سب کر گزرتا تھا۔۔ کیوں وہ اس کے دل کے اتنے قریب ہوچکی تھی۔۔!!
وہ کبھی کبھی سوچتا کہ بالفرض، خدا نخواستہ اگر اریزے، کسی بھی وجہ کے تحت اسے چھوڑ کر چلی گئی تو کیا وہ اس کے بغیر سکون سے رہ پائے گا۔۔!! کیا وہ اس سے دوری سہہ سکے گا۔۔!! 
اور پھر وہ اپنے ہی خیالات پر لعنت بھیجتا۔۔!! کہ نجانے کیا اول فول سوچتا رہتا ہے۔۔!! بھلا وہ کیوں اسے چھوڑ کر جائے گی۔۔!!
××××××××
عنقا، آج پھر ، عادل کے کہنے پر، یونیورسٹی سے اس کے گھر آئی تھی۔۔!! فوزیہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کا پرتپاک ویلکم کیا۔۔ جس پر وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔ لیکن اس وہ ذرا جلدی میں تھیں، کیوں کہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں اپنی ایک فرینڈ کے ہاں جانا تھا۔۔ اور جانا بہت ضروری تھا اس لئے انہوں نے اِسے کمپنی دینے سے معذرت کی اور وہاں سے چلی گئیں۔
×××××
عنقا ، اریزے سے ملنے اس کے روم میں جانے والی تھی کہ اتنے میں وہ خود ہی احتیاط سے سیڑھیاں اترتے نیچے آئی اور عنقا سے ملی۔
اب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بیٹھی کافی بور جو ہوچکی تھی۔۔!!
وہ دونوں بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں، اتنے میں عادل ، اپنی پیاری منگیتر کی مہمان نوازی کی غرض سے، لوازمات سے بھری ٹرالی گھسیٹتے ہوئے لایا۔
ان دونوں نے بھی انعام کے طور پر عادل کو اپنی گپ شپ میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ وہ گپ شپ کم اور عادل کی شامت زیادہ تھی۔۔ کیوں کہ دونوں بہنیں مِل کر، بڑے مزے سے موصوف کا ریکارڈ لگارہی تھیں۔
عنقا کا تو ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔ اور عادل بیٹھا اس کی ہنسی ہر تپ رہا تھا تھا۔۔ "تم ذرا دیکھنا۔۔!! میں، ایک ایک چیز کا بدلا لوں گا تم سے۔۔" اس نے جل کر تڑی دی۔
جس پر عنقا کے مزید قہقہے لگائے۔
وہ کچھ دیر تک، اپنی درگت بنواتے رہنے کے بعد وہاں سے جا چکا تھا۔
××××
آج تو باتیں کرتے کرتے اچھا خاصہ وقت گزرا تھا۔۔ اور ان دونوں کو پتہ بھی نہیں چلا۔
اریزے نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔!! عدیل کے آنے کا وقت تھا۔ 
"آؤ عنقا۔۔ ہم لوگ میرے روم میں چلتے ہیں۔۔!! وہ عدیل آنے والے ہیں۔۔ اور انہوں نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ بالکل بھی نیچے نہ آؤں۔۔ اب اگر یہاں دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے۔۔" اریزے نے مسکرا کر کہا۔
عدیل کو لے کر عنقا کے جو بھی خدشات تھے وہ سب ختم ہوچکے تھے۔ وہ اریزے کو مطمئن دیکھ کر اب خود بھی مطمئن تھی، وہ عدیل کی پرسنیلٹی کو اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔
 وہ اِسے عجیب بھی نہیں لگتا تھا۔۔ بلکہ اب تو وہ اس کی شخصیت سے بہت متاثر تھی۔ اس کا ریزرو سا رویہ، اپنے جذبات اپنی بیوی تک محدود رکھنے کی عادت، فضول گوئی سے اجتناب اور مزاج کی سنجیدگی اور رعب، اسے بھانے لگا تھا۔ اس کی نظر میں مردوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔ اب تو اسے وہ مرد عجیب لگتے تھے جو اپنی کزنز، سالیوں اور دوسری لڑکیوں سے کُھل کر مزاق کرتے تھے۔
 وہ تقریباً اس کا آئیڈیل بن چکا تھا، وہ عادل کو بھی اپنے بھائی جیسا بننے کا بولتی تھی۔
××××××
عنقا، احتیاط سے، اریزے کا ہاتھ پکڑ کر، اسے لے کر جارہی تھی، وہ دونوں آخری سیڑھی پر تھیں کہ عنقا کو زور دار چھینک آئی، چھینک روکنے کی غرض سے، غیر ارادی ردِعمل کے تحت، اس نے اپنا ہاتھ اریزے کے ہاتھ سے چھڑایا، یہ سب اتنا اچانک تھا کہ اریزے کا توازن بگڑا۔۔!! 
وہ تقریباً، عنقا کے سہارے ہی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ توازن بگڑنے پر خود کو سنھبال نہ پائی۔۔!!

   1
0 Comments